کچھ اختیار دل پہ مجھے اب نہیں رہا
رسم و رہِ حیات کا یوں ڈھب نہیں رہا
تجھ کو مِری وفا پہ گِلہ ہے، بجا سہی
میں تیرے دل کے پاس بتا کب نہیں رہا
ترکِ تعلقات کا مجھ سے نہ خوف رکھ
اجداد کا مِرے بھی یہ منصب نہیں رہا
کیوں کر تم اپنی بات پہ قائم نہ رہ سکے
کیوں کر تمہارا ایک ہی مذہب نہیں رہا
ہم کیا کسی کی جھولی میں ڈالیں گے بخششیں
کشکولِ زیست اپنا بھرا جب نہیں رہا
ہم جس کو اپنی جان سمجھتے تھے آج تک
عقرب ہوا، مگر کبھی اقرب نہیں رہا
قلب و زباں کا میل نہ ازہر رہے کبھی
روزِ ازل سے اپنا یہ مشرب نہیں رہا
اویس ازہر مدنی
No comments:
Post a Comment