Thursday 3 October 2024

کسی لمحے بھی دل کی آبلہ پائی نہیں جاتی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

تضمین بر کلام سید نصیرالدین نصیر


کسی لمحے بھی دل کی آبلہ پائی نہیں جاتی

وہ حالت ہے کلیجے کی کہ دکھلائی نہیں جاتی

لہو کے لوتھڑے ہیں آنکھ برسائی نہیں جاتی

’’تڑپ اُٹھتا ہے دل لفظوں میں دہرائی نہیں جاتی‘‘

’’زباں پر کربلا کی داستاں لائی نہیں جاتی‘‘


میں شیدائے علی اکبرؑ، میں قاسمؑ کا ہوں دیوانہ

یہ دل قریہِ کربل ہے یہ دل ہے اب عزا خانہ

وہ غم طاری ہوا مجھ پہ ہے ممکن میرا مر جانا

’’حسینؑ ابنِ علیؑ کے غم میں ہوں دنیا سے بیگانہ‘‘

’’ہجومِ خلق میں بھی میری تنہائی نہیں جاتی‘‘


بتاؤں تجھ کو میں کیسے وجہ چاکِ گریباں کی

دہائی آسماں تک ہے مرے قلبِ پریشاں کی

جگر میں ٹوٹی ہے برچھی غمِ شاہِ شہیداں کی

’’اداسی چھا رہی ہے روح پر شامِ غریباں کی‘‘

’’طبیعت ہے کہ بہلانے سے بہلائی نہیں جاتی‘‘


ترا عمو نہ پورے کر سکا ارمان بھی تیرے

سکینہؑ معاف کر دینا مشیّت ہے مجھے گھیرے

جما رکھے ہیں میرے سامنے تقدیر نے ڈیرے

’’کہا عباسؑ نے؛ افسوس، بازو کٹ گئے میرے‘‘

’’سکینہؑ تک یہ مشکِ آب لے جائی نہیں جاتی‘‘


کہیں محراب و منبر خون میں کوفہ کے تر دیکھے

کہیں چھلنی جگر دیکھا، بے گھر شہؐ کے پسر دیکھے

کہیں خیمے جلے دیکھے کہیں نیزوں پہ سر دیکھے

’’جتن ہر دور میں کیا کیا نہ اہلِ شر نے کر دیکھے‘‘

’’مگر زہراؑ کے پیاروں کی پذیرائی نہیں جاتی‘‘


درود اللہ خود بھیجے شہِ والا کی عطرت پر

رقم آیاتِ قرآنی ہیں دیکھو جن کی صورت پر

گواہ ہے آیہِ تطہیر جن کی پاک طینت پر 

’’دلیل اس سے ہو بڑھ کر کیا شہیدوں کی طہارت پر‘‘

’’کہ میّت دفن کی جاتی ہے، نہلائی نہیں جاتی‘‘


محمدﷺ کی یہ عطرت ہے، پلیدو! اتنا مت بھولو

یہ قرآں کے ورق ہیں سب سنو اے عقل کے اندھو

کہا بنتِ علیؑ نے شام کے شامت زدہ لوگو

’’طمانچے مار لو، خیمے جلا لو، قید میں رکھ لو‘‘

’’علی کے گل رُخوں سے بُوئے زہرائیؑ نہیں جاتی‘‘


کوئی رویا مدینے میں سناں سینے سے کھینچی جو

یہ دل زخموں سے ہے چھلنی ذرا بھائی ادھر دیکھو

بھلا کیسے اٹھاؤں گا جواں بیٹے کے لاشے کو

’’کہا شبّیرؑ نے، عبّاسؑ تم مجھ کو سہارا دو‘‘

’’کہ تنہا لاشِ اکبرؑ مجھ سے دفنائی نہیں جاتی‘‘


اگر جنت میں جانا ہے تو ٹکر لے یزیدوں سے

خدا کو گر منانا ہے تو ٹکر لے یزیدوں سے

اگر ایماں بچانا ہے تو ٹکر لے یزیدوں سے

’’حُسینیّت کو پانا ہے تو ٹکر لے یزیدوں سے‘‘

’’یہ وہ منزل ہے جو لفظوں میں سمجھائی نہیں جاتی‘‘


خدا ان کو محمدﷺ کی مودت کا صدف بخشے

جنہیں اہلِ کساؑ کا عشق اور شوق و شغف بخشے

بروزِ حشر ان کو اپنی قربت میں وہ صف بخشے

’’وہ جن چہروں کو زینت غازۂ خاکِ نجف بخشے‘‘

’’دمِ آخر بھی ان چہروں کی زیبائی نہیں جاتی‘‘


ستم گر ظلم کی زنجیر کو حسنی پروتے ہیں

ستم یہ دیکھ کر زنجیر کے حلقے بھی روتے ہیں

کبھی چوبِ سناں کو پشت پر ظالم چبھوتے ہیں

’’نصیر آخر عداوت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں‘‘

’’کسی بیمار کو زنجیر پہنائی نہیں جاتی‘‘


حسنی سید

سید محمد حسنین الثقلین

No comments:

Post a Comment