جب تک دل میں گھاؤ نہیں تھا
جیون میں بھٹکاؤ نہیں تھا
بیری پہلے بھی ہوتی تھی
آنگن میں پتھراؤ نہیں تھا
انسانی تاریخ سے پہلے
انسانی ٹکراؤ نہیں تھا
ان صدیوں کو ڈھونڈ کے لاؤ
جب جھُوٹا بہلاؤ نہیں تھا
جب تعبیریں مِل جاتی تھیں
تب خوابوں کا بھاؤ نہیں تھا
ذہنوں میں ہیجان ہے اب تو
پہلے بھی ٹھہراؤ نہیں تھا
عابد اختر
No comments:
Post a Comment