مانی ہے کسی نے کب کسی کی
فطرت ہی یہی ہے آدمی کی
ہر سانس ہماری زندگی کی
دیتی ہے دُہائی آپ ہی کی
سو بار گئے ہیں ان کے آگے
جی ہی میں رہی ہے حیف جی کی
کیا کہیے اسے جو رُوٹھ کر بھی
کرتا رہے بات آپ ہی کی
بُوجھی نہ گئی کسی سے اب تک
سیدھی سی پہیلی زندگی کی
ہیں آج وہ کچھ بھرے بھرے سے
کیا میں نے وفا میں کچھ کمی کی
چپ ہو گئے بات کرتے کرتے
یاد آ گئی کیا رضا کی؟
امیر رضا مظہری
No comments:
Post a Comment