اب اس قدر بھی تو بے آبرو نہ سمجھا جائے
کہ آرزو کو مِری آرزو نہ سمجھا جائے
میں با وضو ہوں مگر با وضو نہ سمجھا جائے
میں اپنے آپ سے خلوت میں بات کرتا ہوں
اسے مرض اے میرے چارہ جو نہ سمجھا جائے
وہ اپنا عکس اگر مجھ میں دیکھ ہی نہ سکے
تو آئینے کو مِرے رو بہ رو نہ سمجھا جائے
میں صرف سنتا ہوں اور صرف بولتا وہ ہے
اسے خدا کے لیے گُفتگو نہ سمجھا جائے
یہ ایک روز کوئی انقلاب لائے گا
مِرا لہو ہے اسے بس لہو نہ سمجھا جائے
بھٹک رہا ہے اگر دل نماز میں تو میاں
جو قبلہ رو ہے اسے قبلہ رو نہ سمجھا جائے
خالد اخلاق
No comments:
Post a Comment