Saturday 5 October 2024

مجھ پہ برسایا کس نے تیر نہیں

 مجھ پہ برسایا کس نے تیر نہیں

میں نے بیچا مگر ضمیر نہیں

کیوں نہ ہو قدر میری دنیا میں

میں کوئی ذرۂ حقیر نہیں

وہ تو پیکر تھا آدمیت کا

جس کی ملتی ہے اب نظیر نہیں

کیسے لے جاؤں تجھ کو منزل تک

میں کوئی رات کا سفیر نہیں

پھر بھی میں خوف کھاتا رہتا ہوں

جب کے دشمن مِرا قدیر نہیں

تیرے دروازے پر کھڑا ہے جو

وہ دھنی ہے کوئی فقیر نہیں

دن کے اوراق پر کبھی اشہر

کھینچنا رات کی لکیر نہیں


سرفراز اشہر

No comments:

Post a Comment