مجھ پہ برسایا کس نے تیر نہیں
میں نے بیچا مگر ضمیر نہیں
کیوں نہ ہو قدر میری دنیا میں
میں کوئی ذرۂ حقیر نہیں
وہ تو پیکر تھا آدمیت کا
جس کی ملتی ہے اب نظیر نہیں
کیسے لے جاؤں تجھ کو منزل تک
میں کوئی رات کا سفیر نہیں
پھر بھی میں خوف کھاتا رہتا ہوں
جب کے دشمن مِرا قدیر نہیں
تیرے دروازے پر کھڑا ہے جو
وہ دھنی ہے کوئی فقیر نہیں
دن کے اوراق پر کبھی اشہر
کھینچنا رات کی لکیر نہیں
سرفراز اشہر
No comments:
Post a Comment