دی گواہی لہو کی دھاروں نے
پاؤں چُومے ہیں خارزاروں نے
ساتھ چھوڑا نہ غمگساروں نے
مار ڈالا مجھے سہاروں نے
کس نے لُوٹے مزے بہاروں کے
ہم کو لُوٹا ہے خود بہاروں نے
گھر سجائے چمن اُجاڑ دیا
گُل کھلائے فریب کاروں نے
اب کہیں بھی تو کیا کسی سے کہیں
کاٹ دی رات غم کے ماروں نے
دل سے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا
آج بیٹھے ہوئے مزاروں نے
آخرش نذر کر دیا جرّار
اپنی جانوں کو حق گزاروں نے
سید جرار رضوی چھولسی
No comments:
Post a Comment