Wednesday, 4 December 2024

سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے

 سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے

جیتے جی ہم اپنا ماتم کر چکے

دیکھیے ملتے ہیں کس دن یار سے

عید بھی کر لیں، محرّم کر چکے

دھیان ان آنکھوں کا جانے کا نہیں

یہ ہرن پالے ہوئے رَم کر چکے

دل لگا کر دُکھ اُٹھائے بے شمار

دم شماری بھی کوئی دم کر چکے

اب تو زُلفوں کو نہ رکھو فرد فرد

دفترِ عالم کو برہم کر چکے

واعظو! جو چاہو فرماؤ ہمیں

بیعتِ پیرِ مُغاں کی ہم کر چکے

بحر مستغنی ہیں فکر و شعر سے

گوہرِ معنی فراہم کر چکے


امداد علی بحر

No comments:

Post a Comment