سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے
جیتے جی ہم اپنا ماتم کر چکے
دیکھیے ملتے ہیں کس دن یار سے
عید بھی کر لیں، محرّم کر چکے
دھیان ان آنکھوں کا جانے کا نہیں
یہ ہرن پالے ہوئے رَم کر چکے
دل لگا کر دُکھ اُٹھائے بے شمار
دم شماری بھی کوئی دم کر چکے
اب تو زُلفوں کو نہ رکھو فرد فرد
دفترِ عالم کو برہم کر چکے
واعظو! جو چاہو فرماؤ ہمیں
بیعتِ پیرِ مُغاں کی ہم کر چکے
بحر مستغنی ہیں فکر و شعر سے
گوہرِ معنی فراہم کر چکے
امداد علی بحر
No comments:
Post a Comment