قوت تو ہے نمو کی مگر قحطِ آب ہے
میں وہ زمیں ہوں جس سے گریزاں سحاب ہے
تعمیر کر رہا ہوں نشیمن خلوص کا
یہ جانتے ہوئے بھی کہ موسم خراب ہے
تحلیل ہے فضاؤں میں یوں بے حسی کا زہر
انساں کو کُھل کے سانس بھی لینا عذاب ہے
در پردہ کیا ہیں اس کی سیہ کاریاں نہ پوچھ
جو شخص دیکھنے میں تقدّس مآب ہے
اشکوں سے ہم بُجھاتے ہیں محرومیوں کی آگ
شاید کہ بے بسی کا یہی سدِّ باب ہے
ابرار عابد
ابرار حسین عابدی
No comments:
Post a Comment