کل ہی کی بات نہیں ہوتی (نظم سے اقتباس)
دہلیز پر جو خواب ٹوٹا ہے
وہ کل کا تو نہیں تھا
وہ تو نہ جانے کتنے سالوں سے
نانیوں اور دادیوں نے الھڑ آنکھوں میں جگا رکھا تھا
یہ جو دیوار پر لگی تصویر اچانک دھڑام سے نیچے گر گئی ہے
یہ کل ہی تو نہیں ٹانگی گئی تھی
یہ تو اس آئینے میں سالوں سے نظر آ رہی تھی جو لڑکیاں تکیے کے نیچے
اس امید پر رکھ کر سوتی تھیں کہ
اس رات کے خواب میں ان کے دلہا کے شبہیہ ابھرے گی
روبینہ فیصل
No comments:
Post a Comment