جب تری ذات کو پھیلا ہوا دریا سمجھوں
خود کو بھیگی ہوئی راتوں میں اکیلا سمجھوں
نام لکھوں میں تِرا دُور خلاؤں میں کہیں
اور ہر لفظ کو پھر چاند سے پیارا سمجھوں
یاد کی جھیل میں جب عکس نظر آئے تِرا
آنکھ سے اشک بھی ٹپکے تو ستارا سمجھوں
دستکیں دیتا رہا رات جو گلیوں میں اسے
ذہن آوارہ کہوں،۔ نیند کا مارا سمجھوں
وہ جو آ جائیں مِرے پاس تو ان کو فرحت
دُکھ کی بڑھتی ہوئی بارات کا دُولہا سمجھوں
محمد فرحت عباس
No comments:
Post a Comment