بہ نام سجدہ رسائی کا اک بہانہ مِلا
مِلا مِلا مجھے وہ سنگِ آستانہ مِلا
حرم بھی پست ہے میرے مقام سے اب تو
بلند اس سے بھی اک اور آستانہ ملا
ہنوز مستئ روزِ الست ہے باقی
مجھے مزاج ازل ہی سے عاشقانہ ملا
مجھے یہ کاہشِ ہستی ہے راحتِ ہستی
ملا نصیب سے غم بھی تو جاوِدانہ ملا
تلاشِ عذرِ گُنہ کی یہاں نہیں حاجت
مجھے تو عشق ملا، کیا بڑا بہانہ ملا
رہا کرے گا وہ صیاد کیا تجھے بلبل؟
نوائے غم میں جسے عیش کا ترانہ ملا
مقامِ شکر ہے یہ، تُو گِلہ نہ شاکر
بہت ملا جو تجھے درد کا خزانہ ملا
علامہ شاکر نائطی
No comments:
Post a Comment