تُو مِرے غم سے آشنا کب تھا
غمزدہ ہوں، تجھے پتہ کب تھا
٭چِتر تیرا کوئی بنا کب تھا
اک دِیا تھا مگر جلا کب تھا
آ تو جاتی تِرے قریب، مگر
کوئی آنے کا راستہ کب تھا
عکس کیسے سنبھال کر رکھتی
ٹُوٹ کر آئینہ بچا کب تھا
میری خاموشیوں کو بولنے کا
تُو نے موقع کوئی دیا کب تھا
درد کو کچھ دوا بھی چاہیے تھی
درد کا کوئی سلسلہ کب تھا
خوشبو سکسینہ
٭چتر: سایہ، پرچھائیں
No comments:
Post a Comment