سیپ کو موتی سمندر سے ملا
بے طلب ہم کو تِرے در سے ملا
وہ خزانہ آپ کے صدقے سے ملا
جو بہاروں کو گُلِ تر سے ملا
سر جُھکا جس پر مہ و خُورشید کا
آستاں ایسا مقدر سے ملا
وہ نہ مل پایا زمانے میں کہیں
جو سکوں دل کو تِرے در سے ملا
سلسلہ مسعود کے ایمان کا
نعرۂ اللہ اکبر سے ملا
مسعود بھوپالی
No comments:
Post a Comment