Thursday, 12 December 2024

فصیل ذات پر اترا رہا ہوں

 فصیل ذات پر اترا رہا ہوں

زمانے سے بچھڑتا جا رہا ہوں

میں پتھر کے نئے پیکر بنا کر

بہ شکل موم ڈھلتا جا رہا ہوں

وہ اک چہرہ وہ پلکیں اور تبسم

غزل کو اس کی لے پہ گا رہا ہوں

تصور میں کسی سے بات کر کے

لب و لہجے پہ اس کے چھا رہا ہوں

اڑانوں سے ابھی غافل ہوں اپنی

 زمیں کو آسماں بتلا رہا ہوں

معمہ بن گئی ہے زندگی اب

میں الجھی زلف کو سلجھا رہا ہوں

شناسائی ہوئی خاروں سے اتنی

گُلوں کو دیکھ کر گھبرا رہا ہوں

وہی ہے وصل کی جھوٹی تسلی

میں اسلم روح کو تڑپا رہا ہون


اسلم نور

No comments:

Post a Comment