Thursday, 12 December 2024

شہر در شہر دیدہ ور بھٹکے

 شہر در شہر دیدہ ور بھٹکے

زعم باطل میں تاجور بھٹکے

خود سری میں جو معتبر بھٹکے

ہم سفر ان کے بے خبر بھٹکے

فن کی پگڈنڈیوں پہ چلتے ہوئے

کبھی بھٹکے تو بے ہنر بھٹکے

ہم جو بھٹکے تو نا شناسا تھے

راہبر کیوں ادھر ادھر بھٹکے

ایک عالم کو جس نے بھٹکایا

کبھی یوں ہو کہ وہ نظر بھٹکے

اپنی منزل کا علم ہوتے ہوئے

پھر بھی ہم جان بوجھ کر بھٹکے

زندگی کے لباس خستہ میں

دھوپ میں ہم برہنہ سر بھٹکے

کس میں ہمت تھی ہم کو بھٹکاتا

اپنی خواہش پہ عمر بھر بھٹکے

ہائے اس گل بدن کی حسرت میں

یوں بھٹکنا نہ تھا مگر بھٹکے

اس کو بھی پا سکے نہیں فرحت

جس کو خواہش میں در بدر بھٹکے


محمد فرحت عباس

No comments:

Post a Comment