شہر در شہر دیدہ ور بھٹکے
زعم باطل میں تاجور بھٹکے
خود سری میں جو معتبر بھٹکے
ہم سفر ان کے بے خبر بھٹکے
فن کی پگڈنڈیوں پہ چلتے ہوئے
کبھی بھٹکے تو بے ہنر بھٹکے
ہم جو بھٹکے تو نا شناسا تھے
راہبر کیوں ادھر ادھر بھٹکے
ایک عالم کو جس نے بھٹکایا
کبھی یوں ہو کہ وہ نظر بھٹکے
اپنی منزل کا علم ہوتے ہوئے
پھر بھی ہم جان بوجھ کر بھٹکے
زندگی کے لباس خستہ میں
دھوپ میں ہم برہنہ سر بھٹکے
کس میں ہمت تھی ہم کو بھٹکاتا
اپنی خواہش پہ عمر بھر بھٹکے
ہائے اس گل بدن کی حسرت میں
یوں بھٹکنا نہ تھا مگر بھٹکے
اس کو بھی پا سکے نہیں فرحت
جس کو خواہش میں در بدر بھٹکے
محمد فرحت عباس
No comments:
Post a Comment