نغمہ زن ہے نظر بے آواز
کیوں مِرے دل اثر بے آواز
میرے دل سے انہیں اپنے دل کی
مِل رہی ہے خبر بے آواز
لاکھ کِرنوں کی زباں رکھتا ہے
ایک نُورِ سحر بے آواز
ہوئی برباد پس بے ہُنراں
سعیٔ عرضِ ہُنر بے آواز
پئے ہنگامۂ ہستیٔ بشر
موت ہے چارہ گر بے آواز
ہے وہ بے پاؤں گزرنے کی دلیل
ارتقاء کا سفر بے آواز
رنگ لایا ہے صدا بن کے صبا
میرا خونِ جگر بے آواز
صبا نقوی
No comments:
Post a Comment