Friday, 6 December 2024

بکھرتے بکھرتے سمٹتا رہا

 بکھرتے بکھرتے سمٹتا رہا

مِرے گھر کا نقشہ بدلتا رہا

ذرا وقت بیتے یہی سوچ کر

کتابوں کے پنے پلٹتا رہا

گھروں میں تو چولہے جلے ہی نہیں

دُھواں کیوں مکانوں سے اٹھتا رہا

نہ جانے کہاں آنکھ مصروف تھی

کوئی منظروں کو نگلتا رہا

ملاقات پہلی نہیں تھی نثار

مگر دیر تک اس کو تکتا رہا


نثار راہی

No comments:

Post a Comment