بار غم سے جو نیند آئی ہے
رُوحِ کونین تھر تھرائی ہے
ضبط غم اور آنکھ میں آنسو
کیا کہوں کیسے نیند آئی ہے
آہ، دورِ فراق میں جینا
زندگی بن کے موت آئی ہے
تشنگی رُوح کو ہے حد سے سوا
ابرِ رحمت! تِری دُہائی ہے
ابھی ملنے کا آسرا بھی نہیں
یہ جُدائی بھی کیا جُدائی ہے
موج حالات ہی کچھ ایسے ہیں
غم کی بدلی دلوں پہ چھائی ہے
موج رامپوری
No comments:
Post a Comment