Friday, 6 December 2024

بار غم سے جو نیند آئی ہے

 بار غم سے جو نیند آئی ہے

رُوحِ کونین تھر تھرائی ہے

ضبط غم اور آنکھ میں آنسو

کیا کہوں کیسے نیند آئی ہے

آہ، دورِ فراق میں جینا

زندگی بن کے موت آئی ہے

تشنگی رُوح کو ہے حد سے سوا

ابرِ رحمت! تِری دُہائی ہے

ابھی ملنے کا آسرا بھی نہیں

یہ جُدائی بھی کیا جُدائی ہے

موج حالات ہی کچھ ایسے ہیں

غم کی بدلی دلوں پہ چھائی ہے


موج رامپوری

No comments:

Post a Comment