Wednesday, 11 December 2024

آدمی آدمی کو کھاتا ہے

 آدمی آدمی کو کھاتا ہے

بھیڑیا قہقہے لگاتا ہے

گل چراغوں میں ٹمٹماتے ہیں

وقت خوشبو کے رنگ اٹھاتا ہے

رات مجھ کو بھی کھا نہ جائے کہیں

کوئی کمرے میں پھڑپھڑاتا ہے

دشت مرتا ہے پیاس سے لیکن

ابر 🌪 دریا کو مے پلاتا ہے

اشک آنکھوں میں ڈبڈباتے ہیں

ہجر کھڑکی🪟 کو کھٹکھٹاتا ہے

جیسے انساں کی کچھ نہیں اوقات

بخت چھوٹا بڑا بناتا ہے💥

ایسا سورج تو ڈھل ہی جائے ضمیر

اصل چہرے کو یہ چھپاتا ہے


ضمیر حیدر ضمیر

بصارت سے محروم شاعر

No comments:

Post a Comment