آدمی آدمی کو کھاتا ہے
بھیڑیا قہقہے لگاتا ہے
گل چراغوں میں ٹمٹماتے ہیں
وقت خوشبو کے رنگ اٹھاتا ہے
رات مجھ کو بھی کھا نہ جائے کہیں
کوئی کمرے میں پھڑپھڑاتا ہے
دشت مرتا ہے پیاس سے لیکن
ابر 🌪 دریا کو مے پلاتا ہے
اشک آنکھوں میں ڈبڈباتے ہیں
ہجر کھڑکی🪟 کو کھٹکھٹاتا ہے
جیسے انساں کی کچھ نہیں اوقات
بخت چھوٹا بڑا بناتا ہے💥
ایسا سورج تو ڈھل ہی جائے ضمیر
اصل چہرے کو یہ چھپاتا ہے
ضمیر حیدر ضمیر
بصارت سے محروم شاعر
No comments:
Post a Comment