Wednesday, 11 December 2024

چند یادیں ہیں بام و در کے سوا

 چند یادیں ہیں بام و در کے سوا

ذہن میں کچھ نہیں کھنڈر کے سوا

سر بہت تھے جہان فانی میں

در نہ تھا کوئی تیرے در کے سوا

سب سقیفہ میں نذر کر آئے

اپنی تاریخ کو نظر کے سوا

سر میں سودا تھا ٹک کے بیٹھ رہیں

پیر میں کچھ نہ تھا سفر کے سوا

ایک شہر خطر سے آگے بھی

کچھ نہ تھا شہر پر خطر کے سوا

ہر بڑے شہر کے مکانوں میں

آرزو کچھ نہیں ہے گھر کے سوا

چلئے سب ترک کر دیا ہم نے

اک تمنائے مختصر کے سوا

میں بھی ہوں آب و خاک کا پتلا

کیا ہے دنیا بھی بحر و بر کے سوا

آنکھ کے خول میں سماتا کیا

ایک انسان کی نظر کے سوا

وہاں انبوہ غم میں کون نہ تھا

سب ہی تھے ایک ہمسفر کے سوا

یوں تو منزل بھی تھی ارادہ بھی

سامنے سب تھا اک ڈگر کے سوا

راہرو سب قدم قدم چھوٹے

نہیں اب کوئی راہبر کے سوا

میں ہوں باقی لٹے ہوئے گھر میں

کیا ملا ان کو مال و زر کے سوا


طارق غازی

No comments:

Post a Comment