شکن شکن سے نشان ملال ملتا ہے
جو دل کا ہے وہی چہرے کا حال ملتا ہے
اسی کا حُسن مکمل ہے اور محیط بھی ہے
ہر ایک شے میں اسی کا جمال ملتا ہے
خُدا کا شکر کہ دامن ملا نہ دام ہمیں
کسی کسی کو تو دستِ سوال ملتا ہے
تمام دن کی مسافت کے بعد سورج بھی
شکستہ حوصلوں جیسا نڈھال ملتا ہے
عجیب شہر میں ہم بے ہنر چلے آئے
ہر ایک شخص یہاں با کمال ملتا ہے
بدن کی قید سے چھوٹیں تو آسمانوں میں
ہماری اپنی ہی سوچوں کا جال ملتا ہے
کھلا کہ ہم بھی کوئی منفرد نہیں ہیں نظام
کسی سے چہرہ، کسی سے خیال ملتا ہے
نظام الدین نظام
No comments:
Post a Comment