Wednesday, 11 December 2024

تم کو اپنا بنائے بیٹھے ہیں

 تم کو اپنا بنائے بیٹھے ہیں

اپنی ہستی مٹائے بیٹھے ہیں

ہم کہیں اور جا نہیں سکتے

خواب سارے جلائے بیٹھے ہیں

تم سے ملنا بھی حادثہ ٹھہرا

داغ دل کے سجائے بیٹھے ہیں

سایہ کہتا ہے بے یقینی کا

بُت سے ہم دل لگائے بیٹھے ہیں

ان پہ آنسو اثر نہیں کرتے

ہم کہاں سر جھکائے بیٹھے ہیں

صبح سورج پیام کیا لائے

کل سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں


سحر حسن

No comments:

Post a Comment