تم کو اپنا بنائے بیٹھے ہیں
اپنی ہستی مٹائے بیٹھے ہیں
ہم کہیں اور جا نہیں سکتے
خواب سارے جلائے بیٹھے ہیں
تم سے ملنا بھی حادثہ ٹھہرا
داغ دل کے سجائے بیٹھے ہیں
سایہ کہتا ہے بے یقینی کا
بُت سے ہم دل لگائے بیٹھے ہیں
ان پہ آنسو اثر نہیں کرتے
ہم کہاں سر جھکائے بیٹھے ہیں
صبح سورج پیام کیا لائے
کل سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں
سحر حسن
No comments:
Post a Comment