ظلم کا یا احسان کا مارا
انساں ہے انسان کا مارا
بند ہے مے خانہ زاہد پر
جائے کہاں ایمان کا مارا
سادہ لوحی فطرت میری
ہوں تیرے پیمان کا مارا
اس کی خوشی کیا، اس کا غم کیا
دل ہے تِرے فرمان کا مارا
آج کے شاعر کو کیا کہیے
سُر کا مارا، تان کا مارا
راہ بھٹک جاتا ہے اکثر
منزل کے عرفان کا مارا
دل نے وفا چاہی تھی اس سے
ناداں ہے نادان کا مارا
جان خلش نے دے دی آخر
کیا کرتا وہ آن کا مارا
خلش بڑودوی
No comments:
Post a Comment