Monday, 9 December 2024

ظلم کا یا احسان کا مارا

 ظلم کا یا احسان کا مارا

انساں ہے انسان کا مارا

بند ہے مے خانہ زاہد پر

جائے کہاں ایمان کا مارا

سادہ لوحی فطرت میری

ہوں تیرے پیمان کا مارا

اس کی خوشی کیا، اس کا غم کیا

دل ہے تِرے فرمان کا مارا

آج کے شاعر کو کیا کہیے

سُر کا مارا، تان کا مارا

راہ بھٹک جاتا ہے اکثر

منزل کے عرفان کا مارا

دل نے وفا چاہی تھی اس سے

ناداں ہے نادان کا مارا

جان خلش نے دے دی آخر

کیا کرتا وہ آن کا مارا


خلش بڑودوی

No comments:

Post a Comment