پاؤں نہ دُور دُور بھی اپنی خبر کو میں
پھر ڈُھونڈتا ہوں آپ کی پہلی نظر کو میں
اِک اِک نگاہ میں سینکڑوں تیروں کے وار ہیں
رکھوں کہاں سنبھال کے قلب و جگر کو میں
ایسا تلاشِ یار میں گُم ہو گیا ہوں میں
آؤں گا اب نظر کسی اہلِ نظر کو میں
مُدت میں جلوہ گر ہوئے بالائے بام وہ
اِس چاند کو میں دیکھوں یا دیکھوں قمر کو میں
ایسے گئے کہ زندگی کی شام ہو گئی
لاؤں کہاں سے ڈُھونڈ کے گُزری سحر کو میں
حیرت! نگاہِ یار نے کیا جانے کیا کِیا؟
حیراں اب کہاں رہوں جاؤں کدھر کو میں
حیرت شاہ وارثی
No comments:
Post a Comment