ابر لے جاؤ، صبا لے جاؤ
سارا منظر ہی اٹھا لے جاؤ
چاہتے ہو تو سمندر کی طرف
جاؤ لے جاؤ، گھٹا لے جاؤ
ریت کیا ریت کی دیوار ہی کیا
تم تو دریا یو، بہا لے جاؤ
کیا ضروری ہے کہ گھر سے باہر
اپنے زخموں کی قبا لے جاؤ
ہم کہ اتنے بھی تہی دست نہیں
آ گئے ہو تو دعا لے جاؤ
ہم کوئی برگِ خزاں ہیں کہ ہمیں
جس طرف چاہو اڑا لے جاؤ
ابنِ مریم ہی کہے گا رونق
درد لے آؤ، دوا لے جاؤ
رونق نعیم
No comments:
Post a Comment