لاکھ خوشیوں کا اقتباس ملا
پھر بھی دل غم کے آس پاس ملا
دوستوں میں خوشی تلاش نہ کر
جو بھی مجھ کو ملا اداس ملا
سچ کی گردن پہ جھوٹ ہے اب تک
حق سے ہر اک ہی نا شناس ملا
گرد آلود آئینہ ہیں سبھی
گرد کا جسم کو لباس ملا
درد الفت کا آئینہ میں ہوں
یوں گلے مجھ سے غم شناس ملا
ہے سمندر کی پیاس دل میں شبھم
پھر بھی خالی ہمیں گلاس ملا
شبھم کشیپ
No comments:
Post a Comment