ہم نے یہ قرض بھی اتار لیا
زندگی! جا تجھے گزار لیا
جب غمِ زندگی نے دی مہلت
ہم نے اک شخص کو پکار لیا
آہٹیں دھڑکنوں کی صورت تھیں
دل نے کیا لطفِ انتظار لیا
ایک تم ہو، بچھڑ کے زندہ ہو
ایک ہم ہیں کہ خود کو مار لیا
آندھیوں میں جلے چراغ تھے ہم
ہم نے کیا شہر کا سنوار لیا
غم بھی اپنا، خوشی بھی اپنی ہے
وقت سے کچھ نہیں اُدھار لیا
حسن جاوید
No comments:
Post a Comment