میرے اندر شور بہت ہے
شاید کوئی اور بہت ہے
سناٹوں میں گونج ہے کیسی
اس چپ میں بھی شور بہت ہے
آس امید کو باندھیں کیسے
ٹوٹی دل کی ڈور بہت ہے
دیوانوں کی حد نہ پوچھو
چاند کو ایک چکور بہت ہے
ساتھ سفر میں دے گا کیسے
دل میں جس کے چور بہت ہے
حنا! غزل میں لکھ ڈالیں گے
لفظوں پر اب زور بہت ہے
حنا رئیس
No comments:
Post a Comment