Sunday, 8 December 2024

کوئی خلقت نہ رہے کوئی تماشا نہ رہے

 کوئی خلقت نہ رہے، کوئی تماشا نہ رہے

ایک دیوار گرے، اور یہ پردہ نہ رہے

ہم بھکاری ہیں جنہیں تیری محبت نہ ملی

وہ تو پتھر ہیں، جنہیں تیری تمنا نہ رہے

کوئی زنجیر ہلائے، کوئی پتھر پھینکے

ورنہ ممکن ہے یہاں شہر میں ہم سا نہ رہے

جب بھی رُک جاؤں فضاؤں میں بگُولے ناچیں

لڑکھڑاؤں تو کہیں دُھوپ میں سایہ نہ رہے

اور کچھ دیر چمکتا رہے سُورج عشرت

ظُلمتِ شب کا یہاں کوئی بھی ڈیرا نہ رہے


عشرت رومانی

No comments:

Post a Comment