یاد تیری کسی خوشی کی طرح
مجھ سے ملتی ہے اجنبی کی طرح
ہے اندھیرا مِرا اکیلا پن
تم چلے آؤ روشنی کی طرح
یہ ازل سے ابد کی دوری بھی
سلسلہ ہے تِری گلی کی طرح
دشمنی میں نہ تھا کوئی خطرہ
اب تعلق ہے دوستی کی طرح
فطرت عشق میں ہے جولانی
ان کے جلووں کی تازگی کی طرح
ہائے، شامِ فراق کا عالم
ہر نفس ہے کسی صدی کی طرح
موت کا یوں تو ڈر نہیں، لیکن
ہو کہیں وہ بھی زندگی کی طرح
دل پہ گزری ہے کیا شمیم نہ پوچھ
جب ملا ہے کوئی کسی کی طرح
سخاوت شمیم
No comments:
Post a Comment