میرے بہتے اشکوں میں ذائقہ نہیں ہو گا
جب تلک تلاطم میں معجزہ نہیں ہو گا
سب پرند شاخوں سے جاں بچا کے اڑتے ہیں
وہ جو مر گیا شاید وہ اڑا نہیں ہو گا
آسمان والے خود پھر تمہیں گرا دیں گے
گر تمہارے شانوں پر حوصلہ نہیں ہو گا
بس گزرنے والے کا اتنا دکھ تو ہے مجھ کو
اب کبھی کہیں اس سے رابطہ نہیں ہو گا
روشنی، ہوا، جادو سب پرانے قصے ہیں
ہاں تمہاری آنکھوں سے کچھ سوا نہیں ہو گا
میں تِری امانت ہوں، تُو میری امانت ہے
یہ جو وقت ہے ساجد یہ سدا نہیں ہو گا
علی ساجد
No comments:
Post a Comment