اس مقتلِ ہستی سے گُزر جائیں گے ہم بھی
دُنیا یہی دُنیا ہے تو مر جائیں گے ہم بھی
ہم سے بھی اُلجھتے ہیں بہر گام یہ سائے
شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ڈر جائیں گے ہم بھی
جیسے بھی ہیں انسان ہیں، اے بادِ مخالف
تنکے تو نہیں ہیں کہ بکھر جائیں گے ہم بھی
یہ تُندی و تیزی ہے تو لہروں کے سہارے
کشتی نہ سہی، پار اُتر جائیں گے ہم بھی
توفیقِ غمِ عشق بھی سب کو نہیں ملتی
خُوش ہیں کہ یہ اک کام تو کر جائیں گے ہم بھی
وہ خُونِ تمنا سہی ہر نقشِ وفا میں
اک رنگ دلآویز تو بھر جائیں گے ہم بھی
یہ ذوقِ سفر شوقِ سفر ہے تو یقیناً
راہی نہ سہی زادِ سفر جائیں گے ہم بھی
مصطفیٰ راہی
No comments:
Post a Comment