رُسوا ہوئے جو اہلِ خبر سوچنا پڑا
کیا چیز ہے یہ ذوقِ نظر سوچنا پڑا
یہ وقت ہی کی بات ہے اے یارِِ خُوش خرام
اب ہم ہیں اور برق و شرر سوچنا پڑا
میری وفا پہ تم نے کچھ الزام یوں رکھا
کچھ دیر تک بہ طرزِ دِگر سوچنا پڑا
منزل کا ہے پتہ، نہ گُزرگاہ کی خبر
کیوں ہو گئے شریکِ سفر سوچنا پڑا
اپنی دُعا میں کون سی خامی ہے دوستو
نم ہو گئی جو چشمِ اثر سوچنا پڑا
کیا رہگزارِ یار سے ہم سب بھٹک گئے
اُڑتی نہیں جو گردِ سفر سوچنا پڑا
کیا حُسن و عشق کی سبھی قدریں بدل گئیں
غم ہو گیا جو خاک بسر سوچنا پڑا
صبا جائسی
No comments:
Post a Comment