Thursday, 5 December 2024

ویرانہ دل کو ذہن کو صحرا کہا گیا

 ویرانہ دل کو ذہن کو صحرا کہا گیا

گزرا جدھر سے مجھ کو تماشا کہا گیا

آنکھوں سے آنسوؤں کے سفر کو کبھی کبھی

برسوں کی تلخیوں کا نتیجہ کہا گیا

دیدہ وری کا اپنی یہ ادنیٰ کمال ہے

تصویر غم کو پھول سا چہرہ کہا گیا

اکثر تمہاری بزم میں کیوں بات بات پر

مجھ کو خرابِ شوقِ تمنا کہا گیا

بازارِ زندگی میں جو تاجر تھا موت کا

اس آدمی کو کیسے مسیحا کہا گیا

تیرہ شبی سے دور اجالوں کے آس پاس

جو بھی ملا یقین سراپا کہا گیا

حد سے جو اعتمادِ نظارہ بڑھا سحر

خوش فہمیوں کو آگ کا دریا کہا گیا


نفیس احمد سحر

No comments:

Post a Comment