ویرانہ دل کو ذہن کو صحرا کہا گیا
گزرا جدھر سے مجھ کو تماشا کہا گیا
آنکھوں سے آنسوؤں کے سفر کو کبھی کبھی
برسوں کی تلخیوں کا نتیجہ کہا گیا
دیدہ وری کا اپنی یہ ادنیٰ کمال ہے
تصویر غم کو پھول سا چہرہ کہا گیا
اکثر تمہاری بزم میں کیوں بات بات پر
مجھ کو خرابِ شوقِ تمنا کہا گیا
بازارِ زندگی میں جو تاجر تھا موت کا
اس آدمی کو کیسے مسیحا کہا گیا
تیرہ شبی سے دور اجالوں کے آس پاس
جو بھی ملا یقین سراپا کہا گیا
حد سے جو اعتمادِ نظارہ بڑھا سحر
خوش فہمیوں کو آگ کا دریا کہا گیا
نفیس احمد سحر
No comments:
Post a Comment