دیش بھگتی بے اثر آدھے اِدھر آدھے اُدھر
ہیں دھرم کے نام پر آدھے ادھر آدھے ادھر
دل پگھلتے ہی نہیں مظلوم کی فریاد پر
سب ہیں پتھر کے جگر آدھے ادھر آدھے ادھر
کاٹ دیجے گا کتابِ زندگی سے میرا نام
جوڑ دینا پھر سفر آدھے ادھر آدھے ادھر
آ گئے ہیں آندھیوں کی زد پہ کیا برگ و شجر
ہیں پرندے شاخ پر آدھے ادھر آدھے ادھر
چاند دیکھا منچلوں نے جس گھڑی ہے بام پر
چڑھ گئے دیوار پر آدھے ادھر آدھے ادھر
حادثہ کوئی نہ کوئی پیش آیا ہے ضرور
صف بہ صف ہیں سب بشر آدھے ادھر آدھے ادھر
قتل و خوں جمہوریت کا ہر طرف ہے آج کل
ہیں وفا کے نام پر آدھے ادھر آدھے ادھر
صحن سے دیوار مِل کر اب گِرانی ہے ہمیں
خوش نہیں لگتے پسر آدھے ادھر آدھے ادھر
گردشوں سے کھیلنا ہے کام میرا اب شبھم
لاکھ ہوں خوف و خطر آدھے ادھر آدھے ادھر
شبھم کشیپ
No comments:
Post a Comment