گلشن جو برق کا ہے سہارا لیے ہوئے
ہر پھول ہے ہنسی کا تقاضا لیے ہوئے
یہ دل ہے ایک درد کی دنیا لیے ہوئے
ذرہ ہو جیسے وسعتِ صحرا لیے ہوئے
ساقی اسے نہ بھول کہ محفل میں کل تِری
آیا تھا کوئی ساغر و مینا لیے ہوئے
نقشِ قدم پہ ان کے چلا تھا جو کارواں
بیٹھا ہے آج نقشِ کفِ پا لیے ہوئے
اللہ رے، کہاں سے یہ آئی شعاعِ نو
اک صبحِ نو کا ساتھ تماشا لیے ہوئے
فکرِ نجات و ذوقِ عمل،۔ دردِ آدمی
امجد یہ آدمی بھی ہے کیا کیا لیے ہوئے
امجد غزنوی
No comments:
Post a Comment