Monday, 9 December 2024

گلشن جو برق کا ہے سہارا لیے ہوئے

 گلشن جو برق کا ہے سہارا لیے ہوئے

ہر پھول ہے ہنسی کا تقاضا لیے ہوئے

یہ دل ہے ایک درد کی دنیا لیے ہوئے

ذرہ ہو جیسے وسعتِ صحرا لیے ہوئے

ساقی اسے نہ بھول کہ محفل میں کل تِری

آیا تھا کوئی ساغر و مینا لیے ہوئے

نقشِ قدم پہ ان کے چلا تھا جو کارواں

بیٹھا ہے آج نقشِ کفِ پا لیے ہوئے

اللہ رے، کہاں سے یہ آئی شعاعِ نو

اک صبحِ نو کا ساتھ تماشا لیے ہوئے

فکرِ نجات و ذوقِ عمل،۔ دردِ آدمی

امجد یہ آدمی بھی ہے کیا کیا لیے ہوئے


امجد غزنوی

No comments:

Post a Comment