مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا
بس یہی نہ درد کچھ دل کا سوا ہو جائے گا
وہ مِرے دل کی پریشانی سے افسردہ ہو کیوں
دل کا کیا ہے کل کو پھر اچھا بھلا ہو جائے گا
گھر سے کچھ خوابوں سے ملنے کیلیے نکلے تھے ہم
رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی
کیا تِرے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا
کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment