ہے عشق جنہیں دل کا وہ کہنا نہیں کرتے
مر جائیں مگر عرضِ تمنا نہیں کرتے
مقدور اگر کچھ ہو تو کیا کیا نہ کریں ہم
مقدور نا ہونے پہ تو کیا کیا نہیں کرتے
اچھا نہیں ہوتا کبھی بیمارِ محبت
کامل ہے جنہیں ذوقِ پرستارئ جاناں
بے خوں میں نہاۓ ہوۓ سجدہ نہیں کرتے
مانا کہ تھی فرمائشِ موسیٰ میں جسارت
یوں بھی کسی مشتاق کو رسوا نہیں کرتے
پھر ہوش اثؔر کشتۂ انداز کو آیا
پھر کہہ دو اسی ناز سے، تڑپا نہیں کرتے
اثر لکھنوی
No comments:
Post a Comment