دل گیا بے قراریاں نہ گئیں
عشق کی خام کاریاں نہ گئیں
مر مٹے نام پر وفا کے ہم
تیری بے اعتباریاں نہ گئیں
لب پہ آیا نہ اس کا نام کبھی
کھپ گئی جان بجھ گئے تیور
اشک کی تابداریاں نہ گئیں
توبہ کرنے کو ہم نے کی تو مگر
توبہ کی شرمساریاں نہ گئیں
جان آ ہی گئی لبوں پہ مگر
شوق کی پردہ داریاں نہ گئیں
وہ ہے کینہ کہ سرد مہری ہے
اپنی جانب سے یاریاں نہ گئیں
گِریہ بھی ہے اثرؔ کا مستانہ
نہ گئیں بادہ خواریاں نہ گئیں
اثر لکھنوی
No comments:
Post a Comment