Sunday, 13 November 2016

دل گیا بیقراریاں نہ گئیں

دل گیا بے قراریاں نہ گئیں
عشق کی خام کاریاں نہ گئیں
مر مٹے نام پر وفا کے ہم
تیری بے اعتباریاں نہ گئیں
لب پہ آیا نہ اس کا نام کبھی
غم کی پرہیزگاریاں نہ گئیں
کھپ گئی جان بجھ گئے تیور
اشک کی تابداریاں نہ گئیں
توبہ کرنے کو ہم نے کی تو مگر
توبہ کی شرمساریاں نہ گئیں
جان آ ہی گئی لبوں پہ مگر
شوق کی پردہ داریاں نہ گئیں
وہ ہے کینہ کہ سرد مہری ہے
اپنی جانب سے یاریاں نہ گئیں
گِریہ بھی ہے اثرؔ کا مستانہ
نہ گئیں بادہ خواریاں نہ گئیں

اثر لکھنوی

No comments:

Post a Comment