Sunday, 13 November 2016

اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے

اے دشتِ آرزو مجھے منزل کی آس دے
میری تھکن کو گردِ سفر کا لباس دے
پروردگار تُو نے سمندر تو دے دئیے
اب میرے خشک ہونٹوں کو صحرا کی پیاس دے
فرصت کہاں کہ ذہن مسائل سے لڑ سکیں
اس نسل کو کتاب نہ دے، اقتباس دے
آنسو نہ پی سکیں گے یہ تنہائیوں کا زہر
بخشا ہے غم مجھے تو کوئی غم شناس دے
لفظوں میں جذب ہو گیا سب زندگی کا زہر
لہجہ بچا ہے، اس کو غزل کی مٹھاس دے

معراج فیض آبادی

No comments:

Post a Comment