دلہن بنی ہوئی اب کے چمن میں آئی ہے
بہار ہو کے تِری انجمن میں آئی ہے
شمیم دوست لیے پیرہن میں آئی ہے
نسیم ہوش اڑاتی چمن میں آئی ہے
ظہورِ عشق حقیقت طراز تھا، ورنہ
بسائی جاتی ہے اس میں قمیض یوسف کی
ہوا جو مصر سے بیت الحزن میں آئی ہے
یہ کس کی خاک ہے جو حسرتِ نشیمن میں
صبا کے دوش پہ صحنِ چمن میں آئی ہے
نسیمِ صبح کے جھونکے، مہک وہ پھولوں کی
نفس نفس میں نئی روح تن میں آئی ہے
بقدرِ ذوق نہیں جوئے شیر موج افزا
ہوائے تیشہ سرِ کوہکن میں آئی ہے
گماں ہوتا ہے، اف ری کلام کی گرمی
زبانِ شعلہ اثرؔ کے دہن میں آئی ہے
اثر لکھنوی
No comments:
Post a Comment