Saturday, 12 November 2016

کون کہتا ہے کہ وہ بھولتا جاتا ہے مجھے

کون کہتا ہے کہ وہ بھولتا جاتا ہے مجھے
اپنا چہرہ نہ سہی رہ تو دکھاتا ہے مجھے
صبح کے ساتھ میں کھو جاتا ہوں بچے کی طرح
شام ہوتے ہی کوئی ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے
آپ کچھ اور بتاتے ہیں مِرے بارے میں
آئینہ کوئی اور شکل دکھاتا ہے مجھے
آج اک عمر میں یہ بھید کھلا ہے مجھ پر
وہ کوئی اور نہیں ہے جو ڈراتا ہے مجھے
سرد مہری میں یہ سورج بھی ہے تیرے جیسا
دور ہی دور سے جو دیکھتا جاتا ہے مجھے
یہ نہ میں ہوں نہ ہوا ہے نہ قضا ہے تابشؔ
میرے لہجے میں کوئی اور بلاتا ہے مجھے

عباس تابش

No comments:

Post a Comment