کون کہتا ہے کہ وہ بھولتا جاتا ہے مجھے
اپنا چہرہ نہ سہی رہ تو دکھاتا ہے مجھے
صبح کے ساتھ میں کھو جاتا ہوں بچے کی طرح
شام ہوتے ہی کوئی ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے
آپ کچھ اور بتاتے ہیں مِرے بارے میں
آج اک عمر میں یہ بھید کھلا ہے مجھ پر
وہ کوئی اور نہیں ہے جو ڈراتا ہے مجھے
سرد مہری میں یہ سورج بھی ہے تیرے جیسا
دور ہی دور سے جو دیکھتا جاتا ہے مجھے
یہ نہ میں ہوں نہ ہوا ہے نہ قضا ہے تابشؔ
میرے لہجے میں کوئی اور بلاتا ہے مجھے
عباس تابش
No comments:
Post a Comment