Saturday, 12 November 2016

کیسی بھلا یہ برہمی کیسا یہ پیچ و تاب ہے

کیسی بھلا یہ برہمی کیسا یہ پیچ و تاب ہے
جیسا تِرا سوال ہے،۔ ویسا مرا جواب ہے
تُو ہے فلک تو میں زمیں یہ تُو نہیں کہ میں نہیں
ذرۂ خاک میں بھی ہوں، تُو اگر آفتاب ہے
گھر سے چلی ہے خوبرو ایک ہجوم چار سو
رنگ ہے یا سزا کوئی حسن ہے یا عذاب ہے
ملتے رہیں تو زندگی گنتی کی چار ساعتیں
بچھڑیں تو ایک ایک پَل عرصۂ بے حساب ہے
پھول وہی چمن وہی، سارا ہی بانکپن وہی
ایک ہی شاخ ہر کوئی کانٹا، کوئی گلاب ہے
ایک سا ہے مقابلہ دونوں میں کوئی کم نہیں
جیسی حسین آنکھ ہے ویسا حسین خواب ہے
دنیا میں کون کون ہے، یہ تو ذرا بتایئے
سارے جہاں کے لب پہ ہے دنیا بڑی خراب ہے
شاخ گلاب پر عدیؔم لگتے ہیں دل کھلے ہوئے
صحن بدن میں دل عدیؔم لگتا ہے اک گلاب ہے
اشکوں کی اک طرف عدیؔم ڈوبی ہوئی ہے چشم تر
اشکوں کی دوسری طرف ہر کوئی زیرِ آب ہے

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment