Saturday, 12 November 2016

غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا

غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا
وہ میرا محسن مجھے پتھر سے ہیرا کر گیا
گھورتا تھا میں خلا میں تو سجی تھیں محفلیں
میرا آنکھوں کا جھپکنا، مجھ کو تنہا کر گیا
ہر طرف اڑنے لگا تاریک سایوں کا غبار
شام کا جھونکا، چمکتا شہر میلا کر گیا
چاٹ لی کرنوں نے میرے جسم کی ساری نمی
میں سمندر تھا، وہ سورج مجھ کو صحرا کر گیا
ایک لمحے میں بھرے بازار سونے ہو گئے
ایک چہرہ سب پرانے زخم تازہ کر گیا
میں اسی کے رابطے میں جس طرح ملبوس تھا
یوں وہ دامن کھینچ کر مجھ کو برہنہ کر گیا
رات بھر ہم روشنی کی آس میں جاگے عدیمؔ
اور دن آیا تو آنکھوں میں اندھیرا کر گیا

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment