Saturday, 12 November 2016

دھڑکنے کی صدا تھوڑی سی تو رہنے دو سینوں میں

دھڑکنے کی صدا تھوڑی سی تو رہنے دو سینوں میں
کوئی تو فرق رہ جائے دلوں میں اور مشینوں میں
کہاں ہیں درد کے گوہر سمندر کے دفینوں میں
یہ موتی چاہییں تو ڈھونڈ آنکھوں کے خزینوں میں
یہ آنسو ہیں کہ دریا کشتیوں سے پھوٹ نکلے ہیں
یہ کس نے رکھ دیے طوفان آنکھوں کے سفینوں میں
تپش ہے آنسوؤں کی وہ کہ آنکھیں ہیں چٹخنے کو
یہ لگتا ہے کسی نے آگ رکھ دی آبگینوں میں
کفِ ملبوس سے آنسو تو مجھ کو پونچھ لینے دو
عدیمؔ اب سانپ تو ہوتے ہیں اکثر آستینوں میں

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment