دھڑکنے کی صدا تھوڑی سی تو رہنے دو سینوں میں
کوئی تو فرق رہ جائے دلوں میں اور مشینوں میں
کہاں ہیں درد کے گوہر سمندر کے دفینوں میں
یہ موتی چاہییں تو ڈھونڈ آنکھوں کے خزینوں میں
یہ آنسو ہیں کہ دریا کشتیوں سے پھوٹ نکلے ہیں
تپش ہے آنسوؤں کی وہ کہ آنکھیں ہیں چٹخنے کو
یہ لگتا ہے کسی نے آگ رکھ دی آبگینوں میں
کفِ ملبوس سے آنسو تو مجھ کو پونچھ لینے دو
عدیمؔ اب سانپ تو ہوتے ہیں اکثر آستینوں میں
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment