لوگ جائیں یا تیرا پیچھا کریں
ہر قدم پر سوچتے ہیں کیا کریں
یا ہماری تلخ باتوں کو سہار
یا بتا دے کس سے ہم جھگڑا کریں
ڈھونڈتے تو ہم بھی ہیں راہِ فرار
ایک مدت ہو گئی روئے ہوئے
یار! مجلس ہی کوئی برپا کریں
اپنی مرضی سے گزاریں زندگی
دن میں سوئیں رات کو جاگا کریں
چھوڑنے کو چھوڑ دیں دنیا مگر
اتنے سارے دوستوں کا کیا کریں
شہر کو شورِ قیامت چاہیۓ
یار یہ دو چار چڑیاں کیا کریں
آپ کو آخر یہ حق کس نے دیا
آپ اہلِ دل کو کیوں رسوا کریں
آپ نے تو پھر بہایا خونِ خلق
ہم اگر غصے میں آئیں کیا کریں
شاخ سے کیوں توڑ لیں تازہ گلاب
کیوں کسی تتلی کا حق مارا کریں
تم مکمل بات پر خاموش ہو
لوگ تو پورا میرا جملہ کریں
بس نہیں چلتا زمانے پر اگر
بال ہیں سر پر انہیں نوچا کریں
یہ سمندر تو اگل دیتا ہے لاش
قصد کرنا ہے تو صحرا کا کریں
قیس مل جائے تو پوچھیں مرشدا
عشق کرنا چھوڑ دیں ہم یا کریں
عباس تابش
No comments:
Post a Comment