Saturday, 12 November 2016

ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے

ہوائے تیز! تِرا ایک کام آخری ہے
کہ نخلِ خشک پہ ماہِ تمام آخری ہے
میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر
سکوں سے لگتا ہے میرا قیام آخری ہے
پھر اس کے بعد یہ بازارِ دل نہیں لگنا
خرید لیجئے صاحب غلام آخری ہے
گزر چلا ہوں کسی کو یقیں دلاتا ہوا
کہ لوح دل پہ رقم ہے جو نام آخری ہے
تبھی تو پیڑ کی آنکھوں میں چاند بھر آیا
کسی نے کہہ دیا ہو گا کہ شام آخری ہے
یہ لگ رہا ہے محبت کے پہلے زینے پر
کہ جس مقام پہ ہوں یہ مقام آخری ہے
ہمارے جیسے وہاں کس شمار میں ہوں گے
کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
شروعِ عشق میں ایسی اداسیاں تابشؔ 
ہر ایک شام پہ لگتا ہے شام آخری ہے

عباس تابش

No comments:

Post a Comment