اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے
اے دل! طلسمِ گنبدِ شب میں صدا نہ دے
دیوار خستگی ہوں، مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
ہم سب اسیرِ دشتِ ہویدا ہیں دوستو
گل کر نہ دے چراغِ وفا ہجر کی ہوا
طولِ شبِ الم مجھے پتھر بنا نہ دے
تُو سنگدل سہی، مگر اتنا ستم نہ کر
ثابت ہے میرا جرم، پر ایسی سزا نہ دے
پیچھے ہٹوں تو پاؤں پکڑتی ہے یہ زمیں
آگے بڑھوں تو وہم کوئی راستہ نہ دے
ڈرتا ہوں آئینہ ہوں کہیں ٹوٹ ہی نہ جاؤں
ایک لَو سی ہوں چراغ کی، کوئی بجھا نہ دے
اسلم انصاری
No comments:
Post a Comment