Saturday, 12 November 2016

ایک سمندر ایک کنارہ ایک ستارہ کافی ہے

ایک سمندر، ایک کنارہ، ایک ستارہ، کافی ہے
اس منظر میں اسکے علاوہ کوئ اکیلا کافی ہے
دینے والا جھولیاں بھر بھر دیتا ہے تو اسکا کرم
لینے والے کب کہتے ہیں، داتا اتنا کافی ہے
ایک غلط انداز نظر سے گلشن گلشن داغ جلیں 
شبنم شبنم رلوانے کو ایک ہی جملہ کافی ہے
خشک لبوں پر پیاس سجاۓ بحر آشام نہیں ہیں ہم
ہم جیسوں کو تشنہ لبی میں ایک ہی دریا کافی ہے
اب تو اور بھی دنیائیں ہیں منتظرِ اربابِ ہوس 
ان لوگوں کا قول نہیں ہے ہم کو یہ دنیا کافی ہے
شہرِ وفا سے دشتِ جنوں تک چاہے جتنے مراحل ہوں 
وحشت کے تو دوسرے رخ پر ایک دریچہ کافی ہے
حسنِ سخن باقی رکھنے کو کچھ ابہام ضروری ہے
کہتے کہتے رک جانے میں ہے جو اشارہ کافی ہے
اسکے افسوں اسکے فسانے دونوں کو مسحور رکھیں 
عقل و جنوں کی دہلیزوں پر خواب کا پہرہ کافی ہے
ایک سبھا دل والوں کی اک تان رسیلے لوگوں کی 
شہر کے روشن رکھنے کو اتنا سا اجالا کافی ہے

اسلم انصاری

No comments:

Post a Comment